Monday, October 10, 2011

Monday, August 15, 2011

SHANAY E AMEER MUAVIA(RZ)

حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ

حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی''کنزالاعمال'' ایک موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ''مرحبا۔۔۔۔۔۔'' فرمایا ''(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔
چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے '' معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ''۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی'' تاریخ اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوة، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔
عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذّاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔
اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کریگا۔
پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔
اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
4 ۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
8 ۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
10 ۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
11 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
12 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163احادیث مروی ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
ان وصیتوں کے بعد 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔

محمد راشد حنفی
www.kohsar.tk  

Sunday, July 10, 2011

دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ

دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ
ہر وہ شخص جو شيعہ کا قرآن کے بارے ميں عقيدہ جاننا چاہتا ہے تو اس کے ليے ضروري ہے کہ وہ ان کي بنيادي اور اساسي کتابوں اور ان کے حديث اور تفسير ميں اصلي مراجع کي طرف رجوع کرے تاکہ وہ فيصلہ کرنے ميں منصف اور نتيجہ اخذ کرنے ميں عادل ہو۔ اس ليے کہ ان کے عقائد کا دارومدار اور دوسروں کے ساتھ اختلافات ميں ان پر ہي اعتماد ہے اور ان کا تمسک اور عمل انہيں روايات پر ہے جو انہوں نے اپنے اعتقاد کے مطابق ائمہ معصومين سے جو حضرت علي کي اولاد سے ہيں اپنے خاص طرق اور مخصوص اسناد سے روايت کي ہيں۔ جن سے وہ مسلمانوں کے دوسروے فرقوں سے جدا ہوتے ہيں۔ جيسا کہ ہمارے ہمعصر ايک شيعہ نے ہمارے خلاف رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
ہمارا دين ہر قسم کے عيب اور نقص سے پاک ہے اس ليے کہ اس کے اصول اور فروع اہل بيت النبي سے حاصل کردہ ہيں اور وہ زيادہ جانتے ہيں جو حضرت نبي کے پاس ہيں اور وہ بخوبي جانتے ہيں جو قرآن ميں ہے جو ان کے نانا پر نازل ہوا ہے۔ وہ علم کے خزانے اور حکمت کے دروازے اور اس کي وحي کے مترجم ہيں۔ ان ميں سب سے پہلے علي بن ابي طالب ہيں جو رسول اللہ کے بھائي، آپ کے داماد، اور وصي اور آپؐ کے تمام اسرار وبھيدوں کے جاننے والے ہيں۔ اور يہ وہي ہيں جن کے علم کي طرف تمام صحابہ محتاج تھے جن ميں خلفاء بھي تھے اور وہ صحابہ ميں سے کسي ايک کے محتاج نہيں تھے۔ يہ وہي ہيں جن کے بارہ ميں شوقي نے کہا ہے:
نفس النبي المصطفي وفرعہ
    ودينہ عند اللقا وشرعہ

الـمـران  يـاخـــذان  عـنـہ
 والقمران  نسختان  منہ
اس دين ميں کوئي بھلائي نہيں ہے جس کي اسناد اس بيت (گھر) کے ليے نہ ہو جس کو رسول اللہﷺ نے قرآن مجيد کے ساتھ ملايا ہ ياور ان دونوں (قرآن واہل بيت) کو انسانوں کے ليے ھدايت کا سبب اور ذريعہ قرار ديا ہے جب تک لوگ ان پر تمسک کريں کے اور يہ دونوں ہي ايک دوسرے سے جدا نہ ہونگے (کتاب الشيعہ والسنہ في الميزان ص98 و99 طبع دار الزھراء بيروت)۔
(28) نيز وہ کہتا ہے: اہل بيت ہمارے دين کا منبع اور ماخذ ہيں اور ہمارے احکام کے مرشد اور راہنما ہيں (ايضاًص114)۔
ايک دوسرا شيعہ کہتا ہے: شيعوں کا بجز اس کے کوئي گناہ نہيں کہ وہ عقدۃ النبيﷺ سے تعلق اور نسبت رکھتے ہيں اور ان کے احکام اور سيرت پر تمسک اور عمل کرتے ہيں (صوت الحق ودعوۃ الصدق للطف اللہ الصافي ص38 طبع بيروت)۔
يہ اور اس جيسے بہت فخر کرتے ہيں تمام شيعوں کي کتابيںاس جيسے تفاخر سے بھري پڑي ہيں۔ ليکن ہم نے صرف دو شخصوں کي عبارتوں پر اکتفاء کيا ہے جو ہمارے خلاف رد کے درپے ہوئے ہيں۔
منصف مزاج محقق کے ليے ضروري ہے کہ وہ شيعوں کي طرف کوئي ايسي بات منسوب نہ کرے جو ان کے ائمہ سے ثابت نہ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ايسي بات تب ہي ثابت ہو سکتي ہے جو ان کي ايسي کتابوں ميں پائي جائے جو ان کے ائمہ کي روايات اور احاديث کے جمع کے ليے مخصوص ہيں يہ کتابيں يا تو ديث کي ہيں يا تفسير کي۔ خصوصاً وہ پراني کتب جن ميں ان روايات کي اسناد ہيں يا پھر وہ ان کے ائمہ معصومين کي صحت کے موافق ہيں۔
ہم نے اس باب ميں يہ التزام کيا ہے کہ اس ميں کوئي ايسي چيز داخل نہ کريں جو اثنا عشر کے ائمہ سے منقول نہ ہو اور وہ بھي خود شيعہ حضرات کي کتب سے جو ان کے ہاں قابل اعتماد ہيں۔ تمام شيعہ جن ميں کوئي ايک بھي مستثنيٰ نہيں ہے اپني ابتداء سے ليکر اپنے تمام ائمہ کے زمانوں ميں ہي عقيدہ رکھتے چلے آ رہے ہيں کہ قرآن ميں تحريف اور تغير کيا گيا ہے اور اس ميں بہت سي زيادتي اور کمي کي گئي ہے ہم اس موقف کے ثبوت ميں کليني کي کتاب الکافي سے نقل کرتے ہيں جس کي تعريف وتوصيف ميں يہ کہا گيا ہے کہ:
اصول کي چاروں کتابوں ميں سے سب سے جليل القدر کتاب ہے آل رسول سے منقول کے بارہ ميں اس کي مثل کوئي کتاب نہيں لکھي گئي۔ جس کے مولف ثقۃ الاسلام محمد بن يعقوب بن اسحاق کليني رازي المتوفي 328ھ ہيں (الذريعہ الي تصانيف الشيعہ لآغا بزرک الطہراني ج17ص245)۔
(29) يہ کتاب اسلامي کتب ميں جليل القدر ہے اور اماميہ کي کتابوں ميں بڑي عظيم کتاب ہے۔ جس کي مثل اماميوں کے ليے کوئي کتاب عمل ميں نہيں آتي۔ موليٰ محمد امين استر آبادي نے اپنے فوائد ميں تحرير کيا ہے کہ ہم نے اپنے مشائخ اور علماء سے سنا ہے کہ اسلام ميں کوئي ايسي کتاب تصنيف نہيں ہوئي جو اسکے ہموزن يا اس کے قريب ہي ہو (الکني والالقاب للعباس القمي ص98ج3) اس کي مثل مستتدرک الوسائل ص532ج3 ميں بھي ہے کافي تمام کتابوں سے بزرگي اور اعتماد والي اور اصولوں پر مشتمل ہونے ميں سب سے زيادہ جامع ہے اور عيوب اور فضوليات سے خالي ہے (الوافي ص6ج1)۔
خو انساري نے ذکر کيا ہے کہ محدث نيشاپوري نے الکافي ميں فرمايا ہے کہ: ثقۃ الاسلام، قدوۃ الاعلام، البدر التمام، سفراء امام کے حضور جامع السنن والاثار، الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي محي طريقہ الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي ثقۃ الاسلام قدوۃ الاعلام تھے امام کے سفراء کے حضور جامع السنن والاثار تھے جنہوں نے تيسري صدي ہجري کے آغاز ميں اہل بيت کے طريقہ کو زندہ کيا جنہوں نے بيس سال کي مدت ميں جامع (الکافي) تاليف کي آخرت اور اولي ميں غيوبت کبري کے حادثہ سے پہلے وفات پائي، ان کي کتاب مدح ميں مبالغہ سے مستغني ہے اس ليے کہ وہ امام کے نائب کے محضر ميں تھي۔ ان سے کسي شيعہ نے الکافي کي تاليف کے بارہ ميں سوال کيا اس ليے کہ وہ فرماتے ہيں انہوں نے يہ کتاب اپنے امام پر پيش کي تو انہوں نے فرمايا يہ ہمارے شيعوں کے ليے کافي ہے (روضات الجنات ج6 ص116)۔
                                
                                     kohsar.tk