Sunday, July 10, 2011

دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ

دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ
ہر وہ شخص جو شيعہ کا قرآن کے بارے ميں عقيدہ جاننا چاہتا ہے تو اس کے ليے ضروري ہے کہ وہ ان کي بنيادي اور اساسي کتابوں اور ان کے حديث اور تفسير ميں اصلي مراجع کي طرف رجوع کرے تاکہ وہ فيصلہ کرنے ميں منصف اور نتيجہ اخذ کرنے ميں عادل ہو۔ اس ليے کہ ان کے عقائد کا دارومدار اور دوسروں کے ساتھ اختلافات ميں ان پر ہي اعتماد ہے اور ان کا تمسک اور عمل انہيں روايات پر ہے جو انہوں نے اپنے اعتقاد کے مطابق ائمہ معصومين سے جو حضرت علي کي اولاد سے ہيں اپنے خاص طرق اور مخصوص اسناد سے روايت کي ہيں۔ جن سے وہ مسلمانوں کے دوسروے فرقوں سے جدا ہوتے ہيں۔ جيسا کہ ہمارے ہمعصر ايک شيعہ نے ہمارے خلاف رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
ہمارا دين ہر قسم کے عيب اور نقص سے پاک ہے اس ليے کہ اس کے اصول اور فروع اہل بيت النبي سے حاصل کردہ ہيں اور وہ زيادہ جانتے ہيں جو حضرت نبي کے پاس ہيں اور وہ بخوبي جانتے ہيں جو قرآن ميں ہے جو ان کے نانا پر نازل ہوا ہے۔ وہ علم کے خزانے اور حکمت کے دروازے اور اس کي وحي کے مترجم ہيں۔ ان ميں سب سے پہلے علي بن ابي طالب ہيں جو رسول اللہ کے بھائي، آپ کے داماد، اور وصي اور آپؐ کے تمام اسرار وبھيدوں کے جاننے والے ہيں۔ اور يہ وہي ہيں جن کے علم کي طرف تمام صحابہ محتاج تھے جن ميں خلفاء بھي تھے اور وہ صحابہ ميں سے کسي ايک کے محتاج نہيں تھے۔ يہ وہي ہيں جن کے بارہ ميں شوقي نے کہا ہے:
نفس النبي المصطفي وفرعہ
    ودينہ عند اللقا وشرعہ

الـمـران  يـاخـــذان  عـنـہ
 والقمران  نسختان  منہ
اس دين ميں کوئي بھلائي نہيں ہے جس کي اسناد اس بيت (گھر) کے ليے نہ ہو جس کو رسول اللہﷺ نے قرآن مجيد کے ساتھ ملايا ہ ياور ان دونوں (قرآن واہل بيت) کو انسانوں کے ليے ھدايت کا سبب اور ذريعہ قرار ديا ہے جب تک لوگ ان پر تمسک کريں کے اور يہ دونوں ہي ايک دوسرے سے جدا نہ ہونگے (کتاب الشيعہ والسنہ في الميزان ص98 و99 طبع دار الزھراء بيروت)۔
(28) نيز وہ کہتا ہے: اہل بيت ہمارے دين کا منبع اور ماخذ ہيں اور ہمارے احکام کے مرشد اور راہنما ہيں (ايضاًص114)۔
ايک دوسرا شيعہ کہتا ہے: شيعوں کا بجز اس کے کوئي گناہ نہيں کہ وہ عقدۃ النبيﷺ سے تعلق اور نسبت رکھتے ہيں اور ان کے احکام اور سيرت پر تمسک اور عمل کرتے ہيں (صوت الحق ودعوۃ الصدق للطف اللہ الصافي ص38 طبع بيروت)۔
يہ اور اس جيسے بہت فخر کرتے ہيں تمام شيعوں کي کتابيںاس جيسے تفاخر سے بھري پڑي ہيں۔ ليکن ہم نے صرف دو شخصوں کي عبارتوں پر اکتفاء کيا ہے جو ہمارے خلاف رد کے درپے ہوئے ہيں۔
منصف مزاج محقق کے ليے ضروري ہے کہ وہ شيعوں کي طرف کوئي ايسي بات منسوب نہ کرے جو ان کے ائمہ سے ثابت نہ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ايسي بات تب ہي ثابت ہو سکتي ہے جو ان کي ايسي کتابوں ميں پائي جائے جو ان کے ائمہ کي روايات اور احاديث کے جمع کے ليے مخصوص ہيں يہ کتابيں يا تو ديث کي ہيں يا تفسير کي۔ خصوصاً وہ پراني کتب جن ميں ان روايات کي اسناد ہيں يا پھر وہ ان کے ائمہ معصومين کي صحت کے موافق ہيں۔
ہم نے اس باب ميں يہ التزام کيا ہے کہ اس ميں کوئي ايسي چيز داخل نہ کريں جو اثنا عشر کے ائمہ سے منقول نہ ہو اور وہ بھي خود شيعہ حضرات کي کتب سے جو ان کے ہاں قابل اعتماد ہيں۔ تمام شيعہ جن ميں کوئي ايک بھي مستثنيٰ نہيں ہے اپني ابتداء سے ليکر اپنے تمام ائمہ کے زمانوں ميں ہي عقيدہ رکھتے چلے آ رہے ہيں کہ قرآن ميں تحريف اور تغير کيا گيا ہے اور اس ميں بہت سي زيادتي اور کمي کي گئي ہے ہم اس موقف کے ثبوت ميں کليني کي کتاب الکافي سے نقل کرتے ہيں جس کي تعريف وتوصيف ميں يہ کہا گيا ہے کہ:
اصول کي چاروں کتابوں ميں سے سب سے جليل القدر کتاب ہے آل رسول سے منقول کے بارہ ميں اس کي مثل کوئي کتاب نہيں لکھي گئي۔ جس کے مولف ثقۃ الاسلام محمد بن يعقوب بن اسحاق کليني رازي المتوفي 328ھ ہيں (الذريعہ الي تصانيف الشيعہ لآغا بزرک الطہراني ج17ص245)۔
(29) يہ کتاب اسلامي کتب ميں جليل القدر ہے اور اماميہ کي کتابوں ميں بڑي عظيم کتاب ہے۔ جس کي مثل اماميوں کے ليے کوئي کتاب عمل ميں نہيں آتي۔ موليٰ محمد امين استر آبادي نے اپنے فوائد ميں تحرير کيا ہے کہ ہم نے اپنے مشائخ اور علماء سے سنا ہے کہ اسلام ميں کوئي ايسي کتاب تصنيف نہيں ہوئي جو اسکے ہموزن يا اس کے قريب ہي ہو (الکني والالقاب للعباس القمي ص98ج3) اس کي مثل مستتدرک الوسائل ص532ج3 ميں بھي ہے کافي تمام کتابوں سے بزرگي اور اعتماد والي اور اصولوں پر مشتمل ہونے ميں سب سے زيادہ جامع ہے اور عيوب اور فضوليات سے خالي ہے (الوافي ص6ج1)۔
خو انساري نے ذکر کيا ہے کہ محدث نيشاپوري نے الکافي ميں فرمايا ہے کہ: ثقۃ الاسلام، قدوۃ الاعلام، البدر التمام، سفراء امام کے حضور جامع السنن والاثار، الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي محي طريقہ الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي ثقۃ الاسلام قدوۃ الاعلام تھے امام کے سفراء کے حضور جامع السنن والاثار تھے جنہوں نے تيسري صدي ہجري کے آغاز ميں اہل بيت کے طريقہ کو زندہ کيا جنہوں نے بيس سال کي مدت ميں جامع (الکافي) تاليف کي آخرت اور اولي ميں غيوبت کبري کے حادثہ سے پہلے وفات پائي، ان کي کتاب مدح ميں مبالغہ سے مستغني ہے اس ليے کہ وہ امام کے نائب کے محضر ميں تھي۔ ان سے کسي شيعہ نے الکافي کي تاليف کے بارہ ميں سوال کيا اس ليے کہ وہ فرماتے ہيں انہوں نے يہ کتاب اپنے امام پر پيش کي تو انہوں نے فرمايا يہ ہمارے شيعوں کے ليے کافي ہے (روضات الجنات ج6 ص116)۔
                                
                                     kohsar.tk